Flickr

Pages

Monday 16 November 2015

I am a Muslim and I am not a Terrorist.

*شرمندگی کے کارٹون*

اس بات سے قطع نظر کہ یہ حملے مسلمانوں نے کیے، مغرب کی اپنی چال ہے (داعش کے ذریعے) یا روافض کی کاروائی، یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مسلمان بلاوجہ پیرس دھماکوں پہ شرمندگی کا کارٹون بنے ہوئے ہیں. کسی بھی مسلم گروپ نے اب تک ذمہ داری قبول نہیں کی اور مسلمان ان کے لیے ٹرینڈز چلا چلا کر اور یکجہتی کا اظہار کرکے بے حال ہو رہے ہیں-
یہ لوگ تب کہاں تھے جب 9/11 کے بعد
افغانستان پر 47 ملک بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے
عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاشی کے بہانے 20 ملین عراقیوں کا قتل ہوا-
گوانتانامو، ابو غریب میں بہیمیت کا رقصِ ابلیس ہوتا رہا-
وسطٰی افریقہ کے مسلم کش فسادات-
ہزاروں برمی مسلمانوں کو کاٹنا، جلانا-
ڈرون حملے، قندوز کے ہسپتال پہ بمباری-
ڈیزی کٹر، کلسٹر بموں کی بارش-
مصر میں اخوان کی منتخب حکومت ہٹا کر سیسی جیسے ڈکٹیٹر کا تحفظ-
فلسطینیوں کا اپنی ہی زمین پر قتل عام اور
بشارالاسد کو ہر طرح کے ہتھیاروں کی فراہمی اور خون ریزی کی اجازت دی گئی ---
تب ان کا دل کیوں نہ پگھلا؟
تب ان کے آرام میں کیوں نہ خلل پڑا؟
تب اعصاب کیوں نہ چٹخے؟
اور آج جب یہ قتل و غارت کی آگ مغرب تک پہنچی تو فوراً انکو یاد آ گیا کہ،
I am a Muslim and I am not a Terrorist.
یاد رہے یہ وہی فرانس ہے جس نے مسلم ملک "مالی" میں شریعت نافذ ہونے پہ بمباری کی تھی. نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے. جو مسلمان عورتوں کے حجاب اور مذہبی آزادی کے معاملے میں انتہائی متعصب ملک ہے. الجزائر کے مسلمانوں کے ساتھ جو کیا اب وہی شام میں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر دہرا رہا ہے. اور ہم انہیں اپنے Terrorist نہ ہونے کی صفائی قسمیں کھا کر دے رہے......

*تابوت سکینہ۔ (Ark of the Covenant)*

ہالی ووڈ کی فلموں کا ایک انتہائی مشہور اور کامیاب فلم ڈائریکٹر ، پروڈیوسر اور سکرین رائٹر سٹیون سپل برگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کٹر یہودی ہے اس کی فلموں کے موضوعات اکثر یہودیت کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ سنہ ء 1981 میں اس نے ایک فلم ریڈرزآف دی لوسٹ آرک کے نام سے بنائی۔ یہ فلم جنگ عظیم کے پس منظر میں بنائی گئی ۔ اس فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ جرمن نازی تابوت سکینہ کی تلاش میں مصر کے اثار قدیمہ کی کھدائی کرتے ہیں تاکہ اس تابوت کی برکت سے جنگ میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ دوسری جانب امریکی خفیہ ادارے کے کچھ افراد فلم کے ہیرو آرکیالوجسٹ ڈاکٹر جونز کو جرمنوں کے اس منصوبے کے بارے بتاتے ہیں اور اسے معاوضے پر اس بات کے لئے تیار کرتے ہیں کہ وہ جرمنوں کے اس منصوبے کو ناکام کرے۔ قصہ مختصر ڈاکٹر جونز مصر روانہ ہوجاتا ہے اور بڑی مشکلات سے زمین کے نیچے دفن تابوت سکینہ تک جرمنوں سے پہلے پہنچ جاتا ہے لیکن عین اسی وقت تابوت سمیت جرمنوں کے ھتھے چڑھ جاتا ہے۔ جرمن افسران تابوت کو قبضے میں لے لیتے ہیں مگر اسے اپنی حکومت کے حوالے کرنے سے پہلے اس کی اصلیت جانچنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ایک خفیہ جگہ پر اس صندوق کو کھولا جاتا ہے، صندوق کے کھلنے پر اس خفیہ غار میں گویا قیامت سی آ جاتی ہے ، تمام افسران فوجی اور عملے کے لوگ جو اسے دیکھ رہے ھوتے ہیں ان پر صندوق میں سے برآمد ھونے والی بلائیں حملہ کر دیتی ہیں اور آن کی آن میں غار میں موجود تمام لوگوں کے جسم پانی کی طرح پگھل جاتے ہیں۔جبکہ ڈاکٹر جونز جو کہ اس موقع پر اپنی آنکھیں سختی سے بند کر لیتا ہے وہ زندہ بچ جاتا ہے۔ وہ صندوق کو لے جا کر امریکی حکومت کے حوالے کر دیتا ہے جو اپنی تحویل میں لیکر اسے انتہائی محفوظ جگہ پر چھپا لیتی ہے۔
یہ ایک مثال ہے جس کا مقصد اس صندوق یعنی تابوت سکینہ کی یہودیوں کی نظر میں اہمیت اجاگر کرنا ہے۔
صرف یہی فلم نہیں۔ ہزاروں فلمیں ڈاکومنٹریز اس تابوت سکینہ پر بنائی جا چکی ہیں جن میں اس کی اہمیت اور اس کی تلاش کے حوالے سے کوششیں دکھائی گئی ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس صندوق تک آج تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکی۔ پوری دنیا میں یہودی آج بھی ماہرین آثار قدیمہ کا روپ دھارے ملکوں ملکوں کھدائی کرتے پھر رہے ہیں لیکن آج بھی اس میں ناکام ہیں۔
اس صندوق میں کیا ہے؟۔ یہ صندوق یہودیوں کے لئے زندگی موت کا مسلہ کیوں بنا ہوا ہے؟۔ یہودی اس صندوق کا کیا کرنا چاہتے ہیں؟۔
سب سے پہلے ہم قران پاک میں دیکھتے ہیں کہ اس صندوق کی کیا اہمیت تھی اور اس میں کیا تھا۔ہمارے لئے قران پاک سے بڑھ کر اور کوئی حوالہ نہیں۔
وَقَالَ لَهُمْ نِبِیُّهُمْ إِنَّ آیَةَ مُلْکِهِ أَن یَأْتِیَکُمُ التَّابُوتُ فِیهِ سَکِینَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَکَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِکَةُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَةً لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ
۔سورہ بقرہ:248
اور ان سے ان کے پیغمبر نے کہا: اس کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے سکون و اطمینان کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ و ہارون کی چهوڑی ہوئی چیزیں ہیں جسے فرشتے اٹهائے ہوئے ہوں گے، اگر تم ایمان والے ہو تو یقینا اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔
اس آیت مبارکہ میں لفظ تابوت کا مطلب صندوق اور سکینہ کا مطلب ایسا سامان جس سے دل کو سکون اور راحت ملے۔ یعنی اس صندوق میں ایسا سامان تھا جس کی برکت سے دلوں کو مضبوطی اور تسکین ملتی تھی۔
تفاسیر کے مطابق یہ صندوق سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام پر جنت سے اتارا گیا تھا یہ " شمشاد" نامی لکڑی سے بنا ہوا تھا۔ اس مقدس و متبرک صندوق میں حضرت آدم علیہ السلام اپنا ضروری سامان رکھا کرتے تھے۔ یہ صندوق نسل در نسل چلتا ہوا حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا ۔حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل تھا ان کی اولاد بنی اسرائیل یعنی اولاد اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام یہودا تھا جن کی نسل کو ھم یہودیوں کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ صندوق بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے پاس آ گیا۔ یہودیوں کے پہلے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے یہ صندوق ان کے زیراستعمال رہا۔ اس میں آپ علیہ السلام اپنا عصا مبارک اور آپ پر نازل ہونے والی تورات کی لوحیں رکھا کرتے تھے یعنی اس صندوق میں انبیا کے معجزات کی اشیا محفوظ ھوتی تھیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے دنیا سے رخصت ہونے پر ان کے لباس عصا مبارک ، عمامہ مبارک اور آسمان سے اتارا جانے والا من و سلویٰ بھی اس صندوق میں محفوظ کر دیا گیا اور یہ صندوق قوم کے سرداروں کی تحویل میں چلا گیا۔ یہ معجزات اللہ کی طرف سے ان انبیا پر اتارے گئے تھے چناچہ ان کی برکت سے اس صندوق کو خاص فضیلت حاصل تھی۔بنی اسرائیل کے لوگ اس صندوق کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی اس صندوق کی برکت سے ان کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہوتے تھے کبھی کوئی آسمانی آفت آتی تو یہ اس صندوق کے سامنے بیٹھ کر دعا کرتے تو وہ آفت حیرت انگیز پر فورا" ٹل جاتی۔کبھی زلزلہ ، سیلاب خوفناک آندھی و طوفان آتا تو یہ تابوت سکینہ کے وسیلے سے دعا کرکے اس سے نجات پا لیا کرتے۔ اسی طرح جنگ و جدل کے دوران بڑے سے بڑے لشکر کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت صندوق فوج کے آگے لیکر چلتے جس کی برکت سے ان کے حوصلے بھی بلند ہوجاتے اور دشمن کی افواج پر کم سے کم جانی نقصان کے بدلے غالب آ جاتے۔ خاص موقعوں اور تہواروں پر یہ صندوق کو عزت و احترام سے کندھوں پر اٹھا کر جلوس نکالا کرتے۔اس مقدس صندوق کی حفاظت کے لئے فوج کا ایک خصوصی محافظ دستہ تعینات ہوتا تھا۔
یہ قوم بہت عجیب و غریب عادات کی مالک تھی ایک طرف تو صندوق اور اس میں موجود اشیا کا احترام اس قدر کہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا دوسری طرف اللہ کے احکامات سے مکمل روگردانی کرنا ان کا معمول بن چکا تھا۔ یہ نہایت ضدی اڑیل مغرور اور سرکش لوگ تھے۔ حد سے زیادہ لالچی مال دولت سے محبت کرنے والے اور ظالم تھے اپنے انبیا اور علما کی روک ٹوک پر ان کو خوفناک اذیتیں دیا کرتے تھے۔ جب ان کی سرکشی حد سے بڑھنے لگی تو اللہ نے ان کو عذاب دینے کے لئے ان پر قوم عمالقہ مقرر کر دی۔ اس قوم کے بادشاہ جالوت نے ان پر انتہائی زبردست حملہ کیا ، ان کی بستیاں اجاڑ دیں ، شہروں کو جلا کر راکھ کے ڈھیر بنا دیا ، بے شمار لوگوں کو قتل عام کرکے ہلاک کر دیا اور ان کا تابوت سکینہ چھین کر ساتھ لے گیا۔ مفسرین کے مطابق اس نے اس تابوت کو گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ تابوت کی اس بے حرمتی پر اللہ کی طرف سے قوم عمالقہ پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔جس شہر کے گندگی ڈھیر پر یہ صندوق پھینکا گیا تھا اس شہر میں ایک عجیب سی وبا پھوٹ پڑی جس کا کسی حکیم معالج کے پاس علاج نہیں تھا۔ لوگ بہت تیزی سے لقمہ ء اجل بننے لگے۔ لوگ پریشان ہوکر حاکم شہر کے پاس پہنچے اس نے کاہنوں کو جمع کیا اور ان سے اس عذاب کی وجہ معلوم کرنا چاہی۔ کاہنوں نے حساب لگا کر بتایا کہ اس عذاب کی وجہ تابوت سکینہ کی شدید بے حرمتی ہے۔ وہ لوگ اس صندوق کو بنی اسرائیل کو کسی صورت میں واپس نہیں کرنا چاہتے تھے چناچہ یہ صندوق ایک دوسرے شہر میں پہنچا دیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر صندوق پہنچانے کے بعداس شہر میں بھی وہی خوفناک مرض پھوٹ پڑا اور ہزاروں کی تعداد میں روزانہ انسان مرنے لگے۔ کہا جاتا ہے اس صندوق کی وجہ اس قوم کے پانچ شہر مکمل طور پر تباہ ھوگئے مختلف آفات امراض نے اس قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس پر فیصلہ کیا گیا کہ یہ تابوت واپس بنی اسرائیل کو دے دیا جائے۔ صندوق کو ایک بیل گاڑی پر رکھا گیا اور اسے شہر سے نکال دیا گیا۔ خدا کی قدرت سے بیل اس صندوق کو لیکر بنی اسرائیل کے ملک کی طرف روانہ ھوگئے۔ دوسری جانب اس زمانے میں بنی اسرائیل میں حضرت شموئیل علیہ السلام معبوث کئیے گئے تھے ۔ حضرت شموئیل علیہ السلام طالوت کو جو کہ ایک نیک انسان تھے بنی اسرائیل کا بادشاہ بنانا چاھتے تھے جبکہ بنی اسرائیل حسب معمول سرکشی اختیار کئیے ہوئے تھے۔اپنے نبی کی کسی بات پر عمل کرنے کو تیار نہیں تھے۔ آخرکار قوم کے سرداروں نے جان چھڑانے کی خاطر حضرت شموئیل علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ اللہ کے سچے نبی ہیں اور چاھتے ھیں کہ ان کا حکم مانا جائے تو وہ دعا کریں کہ ان کا قیمتی اور مقدس تابوت سکینہ ان کو واپس مل جائے اگر ان کی دعا قبول ھوگئی تو وہ ان کی ہر بات تسلیم کر لیں گے۔ اس پر حضرت شموئیل علیہ السلام نے حکم ربی سے ان کے ساتھ وعدہ کر لیا کہ تابوت سکینہ اگلے روز صبح تک خودبخود ان کے پاس پہنچ جائے گا۔ اس پر سردار ان کا مذاق اڑانے لگے کیونکہ وہ قوم عمالقہ کی غضبناکی سے اچھی طرح واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کے قبضے سے اس تابوت کا واپس ملنا ناممکن تھا۔ اگلے روز بیل گاڑی پر لدا ہوا تابوت سکینہ ان تک پہنچ گیا جس پر حسب وعدہ انہوں نے اپنے نبی کا حکم مان کر طالوت کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ اوپر والی قران پاک کی آیت میں اسی واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ تابوت سکینہ دوبارہ حاصل ہونے پر اس قوم کے حالات میں ایک بار پھر بہتری آنے لگی لیکن ان کے اعمال وہی رھے۔
پھر حضرت داؤد علیہ السلام کا دور آیا، آس وقت تک یہ قوم خانہ بدوشوں کی سی زندگی گذارتی تھی اور تابوت سکینہ بھی ایک خیمہ میں ہی رکھا جاتا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے ان کے لئے ایک عبادت گاہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جسے ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کے مقام پر عظیم الشان عبادتگاہ کی شکل میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ تابوت سکینہ کو خیمنے سے نکال کر اس عبادتگاہ میں رکھ دیا گیا۔ اس عبادت گاہ کے تابوت سکینہ والے حصے میں سوائے انبیا اور سب سے بڑے عالم کے کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد آپ کی انگوٹھی مبارک بھی اسی تابوت میں محفوظ کر دی گئی۔ جب حضرت زکریا علیہ السلام کا زمانہ آیا تو اس وقت تک یہ قوم اس قدر گمراہی میں ڈوب چکی تھی کہ اللہ کے پیغمبروں کی تذلیل و تحقیر ان کا معمول بن چکی تھی ان پہ ظلم و تشدد ان کے لئے عام سی بات تھی۔ جب حضرت زکریا علیہ السلا م کوزندہ آرے سے چیرا گیا ، اور بعد میں ان کے بیٹے حضرت یحیٰ علیہ السلام کو انتہائی بے رحمی سے قتل کیا گیا تو اللہ تعالی ان سے سخت ناراض ہوگیا۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 586 سال پہلے کی بات ہے کہ حضرت یحیٰ کے قتل کے تھوڑے ہی عرصہ بعد عراق کے بادشاہ بخت نصر نے اسرائیل پر بہت بڑا حملہ کیا ، اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، لاکھوں یہودی قتل کئیے اور لاکھوں کو غلام بنا لیا۔ بیت المقدس کو مکمل تباہ کر دیا اور اس میں رکھے تابوت سکینہ کو قبضے میں لے کر اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ وقت بنی اسرائیل پر تاریخ میں سب سے کڑا تھا۔ بخت نصر نے تابوت سکینہ کا کیا کیا، یہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا۔
تابوت سکینہ ہمیشہ کے لئے یہودیوں سے چھن گیا۔ساتھ ہی یہودی قوم۔۔۔۔ وہ قوم جو تاریخ کی سب سے بہترین قوم تھی۔ جسے اللہ کی لاڈلی قوم ہونے کا فخر حاصل تھا اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ملعون ہوگئی۔ دنیا میں رسوا ہوکر رہ گئی۔
آج یہودیوں کو دو ہزار سال بعد دوبارہ اسرائیل کی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع ملا ہے تو بھی اس قوم کی وہی عادات و اطوار ہیں۔ وہی ظلم و جبر، دھونس دھاندلی، تکبر،خود کو ساری دنیا سے اعلیٰ و ارفع سمجھنے کا خناس، اللہ کی طرف سے لعنت زدہ ہوجانے کے باوجود بھی ابھی تک اللہ کی لاڈلی قوم ہونے کی خوش فہمی موجود ہے۔ وہی مال و دولت کا لالچ اور مال جمع کرنے کے وہی صدیوں پرانے شیطانی طریقے، ان کا کچھ بھی نہیں بدلا۔آج بھی اسی جگہ حضرت سلیمان علیہ السلام والی عبادت گاہ تعمیر کرنے کا جنون اور اسی طرح تابوت سکینہ کو دوبارہ حاصل کرکے ھیکل سلیمانی میں رکھنے کا بخارہے۔ یہ آج بھی مسدج اقصیٰ کی مغربی دیوار جو ٹائٹس کے حملے میں بچ گئی تھی ھیکل سلیمانی کی آخری نشانی سمجھ کر اس سے لپٹ لپٹ کر دھاڑیں مار کر روتے ہیں۔ اپنی عظمت کے دنوں یاد کرکے رونا ان کی عبادت بن چکی ہے لیکن ابھی تک ناسمجھ ہیں۔۔۔
ان کے جنون اور ماضی سے لپٹے رھنے کا یہ عالم ہے کہ پورے کرہ ارض کو کھود کر اس میں سے تابوت سکینہ تلاش کرتے پھر رھے ھیں۔ان کو اپنے مسایا (آخری مسیحا) کا بے صبری سے انتظار ہے جس کے جھنڈے تلے ایک بار پھر ان کو پوری دنیا پر غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ اس ایک آنکھ والے مسایا (دجال اکبر) سے ان کو اس قدر محبت ہے کہ پوری دنیا میں اس کی ایک آنکھ کی نشانی کا پرچار کرتے پھر رھے ھیں۔اس کی آمد پر متحد ھونے کے لئے کئی خفیہ تنظیمیں بنا رکھی ہیں جو اسے خوش آمدید کہہ کر اسے خدا مان لیں گی۔
تابوت سکینہ کی موجودہ جگہ کے بارے میں مختلف لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اس پر انگریز عیسائیوں اور یہودیوں نے بڑی ریسرچ کیں ہیں۔ لیکن حتمی طور پر سارے ایک نقطے پر متفق نہیں ہوسکے۔ لیکن مجھے جو سب سے قرین قیاس تھیوری لگتی ہے وہ یہ کہ اس وقت یہ صندوق یا تابوت حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کہیں دفن ہے۔ جو فلسطین میں آج بھی گم ہے جس کو یہودی کافی عرصے سے ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور آئے دن وہاں بیت المقدس میں کھدائی کرتے رہتے ہیں۔
اس کے متعلق بہت سے نظریات ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ تابوت اب بھی حضر ت سلیمان علیہ السلام کے محل کے اندر ہی کہیں دفن ہے۔
کچھ کے نزدیک اس کو افریقہ لے جایا گیا۔
ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ ران وائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں موجود ہے۔
کچھ لوگوں کے مطابق اسکو ڈھونڈنے کی کوشش انگلینڈ کے علاقے میں کرنی چاہیے۔
جبکہ کچھ سکالرز کا ماننا ہے کہ یہ تابوت ایتھوپیا کے تاریخی گرجا گھر ایکسم میں پڑا ہواہے۔
ایک اور نظریہ ہے کہ یہ بحیرہ مردار کے قریب ایک غار کے اندر کہیں گم ہو چکا ہے۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہودیوں نے 1981 میں اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پہلے محل سے کھدائی کے دوران نکال کر کہیں نامعلوم جگہ پر منتقل کردیا ہے۔ جبکہ کھدائی کرنے والے یہودیوں کا کہنا تھا۔ کہ وہ اس صندوق کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ لیکن اسرائیلی گورنمنٹ نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے پریشر میں آکر اس کی کھدائی پر پابندی لگا دی تھی۔ اسلئے انہیں یہ کام نامکمل ہی چھوڑنا پڑا۔
بہرحال کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔ اور حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تابوت کہاں ہے۔---