Flickr

Pages

Saturday, 4 July 2015

خالصتان تحریک پھر زندہ ہوگئی


بھارتی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ دوعشروں سے خوب مزے سے جھوم رہی تھی کہ اس نے سکھوں کی علیحدگی پسند تحریک کو کچل دیاہے، بھارتی کارپوریٹ سیکٹر کی آنکھوں کا تارا وزیراعظم نریندرمودی بھی خوش تھا کہ کارپٹ کے نیچے گند چھپ گیاہے۔ ایک طرف وہ دنیا کو باور کرارہے ہیں کہ بھارت میں سب اچھا ہے لیکن دوسری طرف وہ پورے بھارت پر ہندوتوا کا رنگ چڑھاناچاہتے ہیں۔
مسلمانوں سے کہاجارہاہے کہ وہ پاکستان چلے جائیں، عیسائیوں اور ان کے کلیسائوں پر حملے ہورہے ہیں، عیسائی لڑکیاں گینگ ریپ کا شکار ہورہی ہیں، یہی برتائو باقی اقلیتوں سے ہورہاہے۔بھارت اپنی فوج کو آزادکشمیر پر چڑھائی کے لئے تیارکررہا ہے، اگرپاکستان کی طرف سے انتہائی سخت جوابی پیغام نہ ملاہوتاتو اب تک آزادکشمیر پر حملہ ہوچکاہوتا۔ مودی’ ہندوتوا ایجنڈا‘ کے پورا ہونے کے بارے میں یقینی کیفیت میں تھے تاہم ان کی بدقسمتی اور ان کے مخالفوں کی خوش قسمتی کہ یہ ایجنڈا بیک فائر کرگیا ہے۔
سکھ علیحدگی پسند تحریک جو 80ء کی دہائی کے اوائل میں بہت پرجوش اندازمیں شروع ہوئی، اور اگلے دس پندرہ برسوں میں کچل دی گئی، اب ایک بارپھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن ایک نئے انداز اور نئے جوش وخروش کے ساتھ۔ 80ء کی دہائی والی تحریک مسلح جدوجہد میں بدل گئی تھی تاہم اب اس کا نیا انداز سیاسی ہے۔ البتہ منزل آزاد مملکت خالصتان ہی ہے، سکھ قوم اس سے کم کسی چیز پر آمادہ نہیں۔ اسی لئے ہرسکھ کی زبان پر ’ریفرنڈم 2020ء‘ کا نعرہ ہے
کہ پنجاب کی سکھ قوم سے پوچھا جائے کہ وہ آزادمملکت خالصتان کے حق میں ہے یا بھارت کے ساتھ ہی زندگی بسر کرناچاہتی ہے۔ سکھ قوم سمجھتی ہے کہ سکھ یہاں کے پرانے باسی ہیں۔ یہ ان کا تاریخی وطن ہے، ان کا ایک الگ مذہب ہے اس لئے وہ ایک الگ مملکت میں رہنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی اورکینیڈا میں مقیم سکھ غیرمعمولی طورپر ’ریفرنڈم 2020ء‘ کی تحریک میں سرگرم کردار اداکررہے ہیں، وہ بڑے مظاہرے اور دیگرپروگرام منعقد کررہے ہیں۔
پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں بھی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔ چھ جون کو امرتسر میں گولڈن ٹیمپل میں بھی بڑی تعدادمیں سکھ جمع تھے، وہ ’خالصتان زندہ باد‘،’ لے کے رہواں گے خالصتان‘،’ بن کے رہے گا خالصتان‘ کے نعرے لگارہے تھے۔مودی سرکار کے حکم پر پولیس نے مظاہرین کی زبان بندی کراناچاہی تو وہ مشتعل ہوگئے۔ یوں سکھ نوجوانوں اورپولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔

0 comments:

Post a Comment